Envy "Jealous" is a Disease not a Habit . - All new News

Hot

Monday, 20 November 2017

Envy "Jealous" is a Disease not a Habit .


حسد ایک مہلک بیماری

مولانا صادق محی الدین


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی جملہ تعلیمات ساری انسانیت کے لیے سراسر رحمت ہے۔ آپؐ کی انسانیت نواز تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ حسد سے بچا جائے اور باہم خیرخواہی کی جائے۔آپؐ نے حسد کی سخت مذمت فرمائی۔ فرمایا: حسد کی آگ انسان کی نیکیوں کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس نے سابقہ اُمتوں کے دین و ایمان کو برباد کردیا ہے۔ جس دل میں حسد کی آگ جلتی ہے وہ کسی بھی حال میں اس کو چین لینے نہیں دیتی۔ حاسد محسود کو نیچا دکھانے، اس کی غِیبت کرنے اور موقع پاکر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے دل کو تسکین کا سامان فراہم کرنے کی سعی لاحاصل میں لگا رہتا ہے۔ اسی لیے بعض دانش وروں نے کہا کہ: ’’حسد ایک ایسی آگ ہے، جس میں انسان خود جلتا ہے ، لیکن دوسروں کے جلنے کی تمنا بھی کرتا ہے‘‘۔
اسلام انسان کو سیرت و کردار کی اس پستی سے اُوپر اُٹھاتا ہے اور ان ساری خامیوں اور خرابیوں کو اس کے سینے سے نکال دیتا ہے جو معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہیں اور انسانوں کے دلوں کی کھیتی کو پیار، محبت، ہمدردی، خیرخواہی اور رافت و رحمت کی بارانِ رحمت سے سیراب کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں اطمینان و سکون اور امن و امان بحال ہوتا ہے۔

٭ رشک اور حسد:
رشک اور حسد دو مختلف چیزیں ہیں۔ پہلی صفت پسندیدہ ہے تو دوسری مذموم ہے۔ رشک کے اندر اخلاقی اعتبار سے کوئی بُرائی نہیں ہے، بلکہ وہ محاسنِ اَخلاق میں سے ہے اور ترقی کا محرک ہے۔ اس کے بالکل برعکس حسد ہے، جس میں حاسد محسود جیسا بننا نہیں چاہتا، بلکہ اس کی نعمت کا زوال چاہتا ہے، اور بلاوجہ دل میں دشمنی کوپالتا ہے۔ اس کے علاوہ حاسد اللہ کی تقدیر سے ناخوش اور بیزار رہتا ہے۔
امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں: ’’حسدیہ ہے کہ حاسد منعم علیہ سے زوالِ نعمت کی تمنا کرے اور بسااوقات حاسد محسود سے ان نعمتوں کے زوال کے درپے ہوتا ہے‘‘۔)مفردات القرآن،ص ۲۳۴(

٭  حسد کے مختلف مظاہر :
۱-بنی آدم کا سب سے بڑا حاسد شیطان ہے۔ اس کو عقیدۂ توحید سے بَیر ہے۔ اس عقیدے سے انسانوں کو برگشتہ کرنے کا اس نے پختہ ارادہ کیا ہے، اور اپنے اس ارادے کا اظہار بھی اس نے اللہ کے سامنے کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو اس کی کھلی چھوٹ دے کر فرمایا کہ: ’’جا ان میں سے جس کو جس طرح چاہے گم راہ کر۔ جو ان میں سے تیری پیروی کرے گا، تیرا اور اس کا ٹھکانا جہنّم ہوا، مگر یاد رکھ! میرے مخلص بندوں پر تیرا دائو چلنے والا نہیں‘‘۔(بنی اسرائیل۱۷: ۶۲تا ۶۵)
۲- بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ حسد پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ کی نافرمانی کی گئی اور زمین پر بھی یہ پہلا گناہ ہے جس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی۔ آسمان میں ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور زمین پر پہلا خون اسی سے ہوا ہے کہ آدم ؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد ہی کی بنیاد پر قتل کر دیا تھا۔ (نضرۃ النعیم، ج۱۰، ص ۴۴۲۷)
۳- شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے اور ان کے دلوں میں بُغض و حسد کی آگ بھڑکائے۔ برادرانِ یوسفؑ کے دلوں میں بھی اسی نے حضرت یوسف ؑ کے خلاف حسد کی آگ لگائی تھی اور ان کے قتل پر آمادہ کیا تھا۔ جیساکہ قرآن نے برادرانِ یوسف ؑ کا یہ قول نقل کیا ہے:’’جب انھوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ یوسفؑ اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالاں کہ ہم جماعت کی جماعت ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔ چلو یوسفؑ کو قتل کردو یا اس کو کہیں پھینک دو کہ تمھارے ابا کی توجہ تمھاری ہی طرف ہوجائے‘‘۔ (یوسف۱۲:۹)
۴- یہودی مسلمانوں سے بُغض و حسد رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ سے پہلے یہودی امامت ِ عالم کے منصب ِ جلیل پر فائز تھے اور سلسلۂ نبوت ان ہی کے خاندان میں چلاآرہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اَخلاقی پستی اور نااہلی کی وجہ سے امامت ِ عالم کے عظیم منصب سے ان کو معزول کردیا۔ نبوت اولادِ اسماعیلؑ کی طرف منتقل کر دی گئی تو یہودی چراغ پا ہوکر غم و غصے اور حسد میں مبتلا ہوگئے کہ یہ نبوت تو ہمارے خاندان کی میراث تھی۔ بنی اسماعیل اس کے کیوں کر مستحق ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نبوت انعامِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضلِ خاص سے نواز دیتا ہے۔اس سلسلے میں حیل و حجت کرنے کا تمھیں کوئی اختیار نہیں ہے:
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج  فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا O(النساء۴:۵۴) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک ِ عظیم بخش دیا۔
رکھے۔ آمین!

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad